Sunday, February 15, 2015

خلافت: ایک سعی ٔ ناکام Caliphate: A Failed Effort


خلافت:  ایک سعی ٔ ناکام


اللہ کا حکم ہے
۔۔ واعتصموابحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا ۔۔ 

تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور فرقہ بندی مت پیدا کرو ۔۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ

کتنے ذہین و فطین لوگ جنہیں اللہ نے کمال عطا کیا اپنے آپ کو مسلمانوں کا ہمدرد ثابت کرتے ہوئے عام مسلمانوں کو اپنی مفاد ‘ نام و نمود ‘ اور اھواء و خواہشات کی بھینٹ چڑھا کر فرقہ واریت کے آگ میں جھونکنے کا کام کیا۔ پھر بعد میں آنے والے بھی ان ہی کے نقش قدم پہ چل کر اپنے آپ کو اپنی اسی اھواء و خواہشات کے مطابق اپنی اپنی فرقے کی تعلیم کو ہی مضبوطی سے پکڑا ۔

اپنی اھواء و خواہشات کی پیر وی میں فروغ فرقہ واریت کا جو بھی نام دیا جائے ہے تو اللہ کی حکم عدولی۔

اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ امامت و خلافتکا جھگڑا سے شیعہ فرقہ کے وجود میں آنے سے ہی خلافتکا زوال شروع ہوا۔

اللہ کے حکم سے اب دوبارہ خلافت اسی وقت قائم ہو گا جب سارے فرقے ختم ہوں گے ‘ مسلمان ایک دوسرے پر شرک و کفر کا فتویٰ لگانا ختم کرکے صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے والے بن جائیں گے اور اللہ و رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں زندگی گزارنے لگیں گے ۔ پھر ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیت بھی ہوگا اور خلافت کا نظام بھی قائم ہوگا۔

لیکن مسلمان
۔۔۔۔ صدیوں سے ہر مسلے کا حل صرف خلافت میں ڈھونڈھ رہے ہیں ۔
۔۔۔۔خلافت لانے کی سعیٔ نا کام میں لگے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔خلافت کے نام پہ بے شمار مسلمانوں کو جنگ و جدل میں جھونک دیئے ہیں۔

خلافت کے نام پہ ہمیشہ مسلمان ہی مسلمان کا خون بہاتا رہا ہے۔
خلافت کے نام پہ بہت بے وقوف بن چکے۔ اب مزید بے وقوف نہ بنیں۔
خلافت تحریک سے آنے والی ہے اور نہ ہی جنگ وجدل سے ۔

کسی بہروپیئے کے چکر میں پڑکر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا گلا کاٹ کر خلافت لانے کی سعیٔ ناکام نہ کیجئے۔

خلافت اللہ کا عطیہ ہوتا ہے اور اللہ کے خاص بندوں کیلئے ہوتا ہے جن کے اوصاف قرآن میں درج ہے۔
ان اوصاف کو اپنا کر اللہ کے بندے بن جائیے جیسا کہ اللہ چاہتا ہے۔ پھر دیکھئے اللہ خود ہی خلافت عطا کرے گا ‘ جیسا کہ اس کا وعدہ ہے:

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٥٥﴾سورة النور

تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں ا ور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ / حاکم / جانشین بنائے گا جیسےکہ ان لوگوں کو خلیفہ / حاکم / جانشین بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کےاس دین کو مضبوطی کےساتھ محکم کرکے جما دےگا جسے ان کےلئے وه پسندفرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطرکو وه امن و امان سے بدل دےگا، وه میری عباد ت کر یں گے میرے ساتھ کسی کوبھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔اسکے بعدبھی جو لو گ نا شکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں ۔

Monday, October 13, 2014

Peace of Mind دل کا سکون

دل کا سکون  Peace of Mind
دل کا سکون کون  نہیں چاہتا۔
ذرا آنکھیں کھولیں اور دیکھ لیں قرآن کو نہیں ماننے والوں نے اپنے دلوں کے اطمینان و سکون کیلئے کیسی کیسی بری عادتوں کا اور برائیوں کا سہارا لیا ہوا ہے۔
سیکڑوں اقسام کے شراب و منشیات اور نیند کی گولیوں میں دلوں کا سکون تلاش کرتے ہیں‘ گندی لٹیریچرو گندی تصویروں سے دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں ‘ گندی فلمیں و ڈرامے وغیرہ دیکھتے ہیں‘ کتوں و خنزیروں سے دل لگاتے ہیں اور تو اور نائیٹ کلب وغیرہ میں قومِ لوت سے بھی بڑی برائیوں کا سہارا لیتے ہیں ۔۔۔ لیکن ان کے دلوں کو سکون نہیں ملتا۔
افسوس آج ہم مسلمان بھی ان ہی کے نقش قدم پہ چل کر دل کا سکون چاہتے ہیں۔
دلوں کے خالق نے ہم پر کتنا احسان کیا ہے۔
ہمارے دلوں کا اطمینان اپنے ذکر میں رکھ دیا ہے۔
أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴿٢٨﴾ سورة الرعد
ترجمہ : ’’ جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ ‘‘
پس اپنے دل کے اطمینان و سکون کیلئے ہمیں اللہ کا ذکر سے دل لگانا ہوگا۔
قرآن کریم ذکر بھی ہے‘ ہمارے دلوں کی بیماریوں کی شفا بھی‘ ہمارے لیے ہدایت اور رحمت بھی ہے۔
اس قرآن کو نازل کرنے والے اللہ سبحانہ و تعالٰی کا قرآن کے بارے فرمانا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾  سورة يونس
ترجمہ : ’’ لوگو تمہارے پروردگار کی طرف سے (قرآن کی شکل میں) نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے۔ ‘‘
اور اللہ سبحانہ و تعالٰی نماز کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴿١٤﴾ سورة طه
ترجمہ : ’’ اور میری یاد کیلئے نماز قائم کرو۔ ‘‘
ارے مومن بندے کو دل کے اطمینان و سکون کیلئے اور کیا چاہئے۔
ہمارے رب کا کتنا بڑا احسان ہے ہم پر کہ جس اطمینان و سکون کی تلاش میں اہل باطل اپنا کثیر سرمایا خرچ کرکے بھی نہیں پاتے‘ ہمارے رب نے  ہمیں مفت میں دے  دیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی وعدہ ہے وسیع مغفرت اور بڑا ﺛواب کا :
وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٣٥﴾ سورة الأحزاب
ترجمہ : ’’  بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ﺛواب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ ﴿١٥٢﴾  سورة البقرة
ترجمہ : ’’  سو تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو۔ ‘‘
ذرا غور کیجئے ہمارے   پروردگار نے  ہمیں کتنے شرف  و اعزاز  سے نوازا ہے‘  اگر ہم اپنے رب کا ذکر کریں تو ہمارا رب بھی ہم  جیسے حقیروں کو یاد کرتا ہے۔
ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتاہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے، اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تومیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں،  اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرے تو میں اُسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اُس (جماعت)سے بہتر ہے، اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آئے تو میں ایک ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب آئے تو میں دونوں ہاتھوں کے پھیلانے کے برابر اُس کے قریب آتا ہوں ، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اُس کے پاس آتا ہوں۔‘‘ [رواہ البخاري والمسلم]
سبحان اللہ ! تھوڑی سی محنت اور کاوش سے اللہ سبحانہ و تعالٰی کے ذکر میں دل لگا کرہم ایسے خوش نصیب ہو سکتے کہ ہمارا رب اپنےعرش پر اپنے مقرب فرشتوں کے درمیان ہمارا  ذکر کرے ۔
لیکن آج ہم مسلمانوں میں ایسی تڑپ کہاں ؟
آج ہم دنیا  بٹورنے میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ  ہمیں  اپنے رب کو یاد کرنے کی فرصت ہی نہیں۔
اپنے رب کی تمام تر عنایتوں کے باوجود آج  مسلمانوں کی اکثریت   اللہ کی ذکر سے‘  نماز  و قرآن سے دور ہے‘ آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے رب کو بھلا بیٹھی ہے ۔
اللہ سے غفلت  کی وجہ سے الله نے بھی ان کو ایسا کر دیا کہ وہ اپنے آپ ہی کو بھول گئے‘ اپنے شرف اپنے اعزاز کو بھول گئے جس بارے میں اللہ نے ہمیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا :
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّـهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿١٩﴾ سورة الحشر
ترجمہ : ’’  اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے الله کو بھلا دیا تو الله نے بھی انہیں ایسا کر دیا کہ وہ اپنے آپ ہی کو بھول گئے  یہی لوگ نافرمان ہیں۔ ‘‘

Saturday, July 12, 2014

خلافت :کب اور کیسے Khilafat : When and How

ہماری زندگی مختلف عہد و میثاق (Agreement ) میں بندھی ہے۔
ہم عہد و پیمان باندہ کر ہی شادی کرتے ہیں اور پھر اُسے ساری زندگی نبھاتے بھی ہیں۔
ہمیں ملازمت بھی ایک عہد (Agreement ) کے تحت ملتی ہے اور ہم کام بھی عہد (Agreement ) کے تحت کرتے ہیں۔
ہمارا ملک و معاشرے میں اُٹھنا بیٹھنا‘ چلنا پھرنا‘ رہنا سہنا‘ سب کچھ ہی کسی نہ کسی عہد کی پاسداری کا حصہ ہے۔
ملک کی شہریت ہو‘ یا کرائے پہ مکان میں رہنا یا کرائے پہ مکان دینا سب کچھ ہی ایک عہد نامہ (Agreement ) کے تحت ہے۔ ملکوں اور قوموں کے درمیان دوستی اور دشمنی میں بھی میثاق / عہد کلیدی کر دار کا حامل ہے۔
غرض کہ سماجی زندگی میں ہم ہر جگہ کسی نہ کسی عہد کے پابند ہیں ۔ بعض عہد بالواسطہ اور بعض بلا واسطہ ہوتا ہے۔ بالواسطہ تو ہم خود سمجھ بوجھ کر کرتے ہیں جبکہ بلا واسطہ ملکی قانون یا سماج و دین و ملت کا عہد ہوتا ہے جو از خود ہم سے متعلق ہو جاتا ہے۔ اور ہم ہر حال میں ہر بالواسطہ و بلا واسطہ عہد کی پاسداری کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں ہی ہماری کا میابی ہے۔
جی ہم کامیابی چاہتے ہیں اور اسکے لئے ہر عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں ایفائے عہد پسندیدہ ہے اور عہدشکنی نا پسندیدہہے۔
عہد شکنی کی بھیانک نتائج سے بھی ہم سب واقف۔ عہد شکنی سے گھر ٹوٹتے ہیں‘ لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوتیں ہیں‘ محلے‘ قصبے اور شہر ویران ہوتے ہیں۔ عہد شکنی چاہے کویٴ فرد کرے یا قوم و ملک ۔۔۔ نتائج ہمیشہ بھیانک ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم عہد شکنی کا سونچتے بھی نہیں۔
لیکن اس کے باوجود بھی لوگ عہد شکنی کرتے ہیں اور وہ بھی اپنے خالق و مالک‘ رحمٰن و رحیم رب سے کی گئی عہد کی عہد شکنی ‘ جو کہ ہر انسان نے اللہ سے اپنی پہلی ملاقات کے وقت کر چکا ہے کہ ’’ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور اس کا کویٴ شریک نہیں۔‘‘
اللہ سے ہماری اس عہد کی تفصیل قرآن میں کچھ یوں بیان ہوا ہے:

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢﴾ سورة الأعراف
اور جب آپ کے رب نے اوﻻد آدم کی پشت سے ان کی اوﻻد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ
’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘
سب نے جواب دیا:
’’ کیوں نہیں! ہم سب گواه بنتے ہیں۔‘‘
تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔

أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧٣سورة الأعراف
یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راه والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟

اس عہدکے بارے میں حضرت اُبَیّ بن کَعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کر کے کچھ یوں بیان کیا ہے:

”اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھہراتا ہوں تا کہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر انا۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا ۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود“۔

اسلامی تشریحات میں یہ عہد ’عہد الست‘ کہلاتا ہے ۔

اس ازلی ‘ میثاق و عہد ‘ اس بات پر دلیل ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہ ِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ ہمارے رحیم و کریم رب نے اس عہد کا شعور ہر انسان کے اندر ہی رکھ دیا ہے۔ ہر انسان فطرتاً اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرتا ہے، چاہے وہ دل و زبان سے کتنا ہی ڈھٹایٴ او ر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیوں نہ کرے۔

ہم سب اپنے خالق کے ساتھ اسی ‘ میثاق / عہد ‘ میں بند ھے ہوئے ہیں۔ اسی ’ میثاق / عہد ‘ کی یاد دہانی کیلئے انبیاء علیہ السلاۃ و السلام مبعوث ہوتے رہے اور اب یہ ’ میثاق / عہد ‘ تحریری طور پر قرآن میں قیامت تک کیلئے محفوظ کر دیا گیا ہے تا کہ قیامت تک آنے والی انسانیت اس ’ میثاق / عہد ‘ کی روشنی میں ’ اللہ کو اپن ا ربِ واحد مانتے ہوئے اسی کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق زندگی گزاریں اور کامیابی سے ہم کنار ہوں۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ اخلاقی و عملی فسادات‘ جہالت و جاہلیت‘ نفسانی خواہشات و تعصبات کی رو میں بہہ کر آج مسلمانوں کی اکثریت اس میثاق کی پاسداری نہیں کر رہی ہے اور ہر لمحہ شرک و بدعت میں غرق ہونے کے با وجود یہ نعرہ ہے کہ ’’ امت مسلمہ کبھی شرک نہیں کر سکتی ‘‘۔

ضد‘ بغض‘ عناد‘ تعصب و ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر قرآن و حدیث کو معیار بنا کر اس ہمیشہ کی حلاقت میں ڈالنے والی نعرہ سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نکالئے۔

پہلی قوموں کی تباہی و بر بادی کا سبب بھی یہی شرک تھا اور یہ اُمت بھی اُسی روش کو اپنا کر تباہ ہو رہی ہے ۔ ۔ ۔ ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہی ہے‘ یہودیوں کی جیسی ذلت و مسکنت اس پہ چھا گئی ہے۔

اس مغالطے میں نہ رہیں کہ اُمت مسلمہ عہد کی پاسداری کر رہی ہے کونکہ اگر یہ اُمت عہد نبھاتی تو اللہ بھی اپنا وعدہ پورا کرتا کیونکہ ہم سب کا ایمان ہے کہ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا اور اللہ کا وعدہ ہے:

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٥٥سورة النور
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمانﻻئے ہیں ا ورنیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرورزمین میں خلیفہ / حاکم / جانشین بنائے گا جیسےکہ ان لوگوں کو خلیفہ / حاکم / جانشین بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کےاس دین کو مضبوطی کےساتھ محکم کرکے جما دےگا جسے ان کےلئے وه پسندفرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطرکو وه امن و امان سے بدل دےگا، وه میری عباد ت کر یں گے میرے ساتھ کسی کوبھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔اسکے بعدبھی جولو گ نا شکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اِس فرمان میں اپنے مومن بندوں کو خلافت عطاء کرنے کا وعدہ چار شرائط کے ساتھ کیا ہے:

۱۔ جو ایمان لائے ہیں
۲۔ جو نیک اعمال کئے ہیں
۳۔ جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے
۴۔ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے

مسلم دنیا پہ یا صرف اپنے آس پاس ہی ایک نظر ڈال لیں تو ہم سب یک زبان یہ کہہ اُٹھیں گیں کہ آج اُمتِ مسلمہ خلافت کی اِن شرائط میں سے ایک بھی پوری نہیں کرتی۔

۱۔ایمان کی جگہ دلوں میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اگر ایمان ہوتا تو ۵۰ سے زائد مسلم اکثریتی مما لک میں یہود و نصاریٰ یا دہریوں کی مادرپدر آزاد جمہوریت‘ سیکولرزم یا کمیونزم کی جگہ اسلام کی سیاسی، معاشرتی اور معاشی اصولوں پر مبنی نظام حکومت خلافت ہوتا۔

۲۔جب ایمان نہیں تو اعمالِ صالح قابل قبول نہیں اور منافقت میں کئے گئے اعمال ضائع ( حَبِطَتْ) ہی ہونگیں۔
۳۔ صرف اللہ کی عبادت کریں گے ۔۔۔ اُمت میں آج کتنی بدعتیں عبادات بن گئیں ہیں ‘ اللہ کے ساتھ ساتھ آج کتنے زندوں مردوں کی عبادات ہو رہی ہے‘ امریکہ سمیت کتنے طاغوت کے آگے سر جھکایا جا رہا ہے۔
۴۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے ۔۔۔ آج اُمت قریب ہر مسلم اکثریتی ملک کے ہر گلی کوچے میں شرک کی فیکٹریاں قائم کر رکھیں ہیں جہاں میں بڑے بڑے داڑھی اور پگڑ والے شرک کرتے اور کرواتے ہیں اور بڑے ڈھٹایٴ سے کہتے ہیں یہ اُمت تو شرک کر ہی نہیں سکتی۔ اور کیوں نہ کہیں کہ اسی شرکیہ عقیدے سے تو وہ اپنی دنیا بنا رہے ہیں۔

حیرت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شرائط اور وعدے کو بھول کر صدیوں سے اُمت مسلمہ خلافت کیلئے کوشاں ہیں۔ متعدد دینی و سیاسی جماعتیں (جیسے جماعت اسلامی‘ جمیعتِ علمائے اسلام‘ اخوان ا لمسلمین وغیرہ ) اور مختلف جہادی تنظمیں خلافت کیلئے مسلسل جد وجہد کرتی رہیں لیکن نہ خلافت قائم ہونا تھا اور نہ ہوا۔ ایک تبلیغی جماعت بھی ہے جو ایمان و عقائد کو درست کئیے بغیر صرف اعمال درست کرنی کی سعی تقریبا ً سو سالوں سے کررہی ہے‘ جن کی تعداد ساری دنیا مین سب سے زیادہ ہے لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنےایمان و عقائد کی اصلاح کئے بغیر جہاد کے ذریعے خلافت قائم کرنے کے چکر میں مسلمانوں ہی کا قتل عام کرتے پھر رہے ہیں۔

حیرت ہے کہ اُمت کے اِن بڑے بڑے مفکر اسلام‘ شیخ الاسلام‘ اکابرِ اُمت وغیرہ وغیرہ کو خلافت کیلئے اللہ کی عاید کردہ شرائط اور اُمت میں ایمان و اعتقاد کی کمزوری و تنزلی کیوں نظر نہیں آیٴ یا نہیں آتی۔ کیا تاریخِ اقام عالم میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ شرک و بدعت کی ظلمتوں میں ڈوبے لوگوں کے ذریعے خلافت قائم ہوا ہو۔ نہیں کبھی نہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نےنبی کریم ﷺ سمیت جتنے بھی انبیاء علیہ السلاۃ السلام بھیجے سبھوں نے پہلا کام ہی یہی کیا کہ لوگوں کو شرک کی ظلمتوں سے نکال کر اُن کے دلوں کو توحید کی روشنی سے منور کیا اور جب خالص توحید کی بنیاد پہ ایک اُمت بن گئی تو اللہ نے اُنہیں دنیا میں خلیفہ / حاکم / جانشین بنایا۔

نبی کریم ﷺ نے جنہیں شرک کی گندگی نکال کر توحید کی نور سے منور کیا اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق اُنہیں زمین پر خلافت عطا کی۔ آج اگر اُمت مسلمہ کو خلافت چاہئیے‘ شریعت کو نفاز چاہئیے تو خلفائے راشدین جیسا ایمان و اعتقاد پیدا کرنا ہوگا جو شرک سے بالکل پاک تھا‘ انہوں نے توحید کو جس طرح سمجھا‘ جانا اور مانا تھا اسی طرح سمجھنا‘ جاننا اور ماننا ہوگا۔ انہوں نے جو اعمالِ صالح کیا تھا جس مین بدعت نہیں تھی‘ اُنہوں نے صرف اللہ کی عبادت اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔

اِس کیلئے ضروری ہے کہ تنگ نظری‘ ہٹ دھرمی و تکبر چھوڑ کر ہم سب آگے بڑھیں۔ قرآن کی اُن آیتوں کو لیں جن میں شرک کا بیان ہے‘ (جن کی اکثر کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ یہ تو کافروں اور مشرکوں کیلئے تھی) اور دیکھیں کہ مسلمانوں میں کون کون سی شرک موجود ہے‘ اُن سے خود بھی اپنے دل کو پاک کریں اور اپنے اہل و عیال اور تمام مسلمانوں کو اُس سے نکالنے کی سعی کریں اور اسکی جگہ قرآن و احادیث کے مطابق توحید کی آبیاری کریں۔ پھر جاکے ہمارے اعمالِ صالحہ بھی قبول ہوگی‘ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والے ہو جائیں گے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے

تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ بھی اپنا وعدہ پوری کرے گا اور اُمتِ مسلمہ کو خلافت ست سرفراز کرے گا کیونکہ ہم سب کا ایمان ہے کہ ہمارا اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

Thursday, March 27, 2014

اللہ سے وعدہ اور اللہ کا وعدہ Promise with Allah and Promise of Allah

ہماری زندگی مختلف عہد و میثاق (Agreement ) میں بندھی ہے۔
ہم  عہد و پیمان باندہ کر ہی شادی کرتے ہیں اور پھر اُسے ساری زندگی نبھاتے بھی ہیں۔

ہمیں ملازمت بھی ایک عہد (Agreement ) کے  تحت ملتی ہے اور ہم کام بھی عہد (Agreement ) کے تحت کرتے ہیں۔

ہمارا ملک و معاشرے میں اُٹھنا‘ بیٹھنا‘ چلنا پھرنا‘ رہنا سہنا‘ سب کچھ ہی کسی نہ کسی عہد کی پاسداری کا حصہ ہے۔

ملک کی شہریت ہو‘ یا کرائے پہ مکان میں رہنا یا کرائے پہ مکان دینا سب کچھ ہی ایک عہد نامہ (Agreement ) کے  تحت ہے۔ ملکوں اور قوموں کے درمیان دوستی اور دشمنی میں بھی میثاق / عہد کلیدی کردار کا حامل ہے۔
غرض کہ سماجی زندگی میں ہم ہر جگہ کسی نہ کسی عہد کے پابند ہیں ۔ بعض عہد بالواسطہ اور بعض بلا واسطہ ہوتا ہے۔  بالواسطہ تو ہم خود سمجھ بوجھ کر کرتے ہیں جبکہ بلا واسطہ ملکی قانون یا سماج و  دین و ملت کا عہد ہوتا ہے جو از خود ہم سے متعلق ہو جاتا ہے۔ اور ہم ہر حال میں ہر بالواسطہ و بلا واسطہ عہد کی پاسداری کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں ہی ہماری کامیابی ہے۔

جی ہم کامیابی چاہتے ہیں اور اسکے لئے ہر عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں ایفائے عہد پسندیدہ ہے اور عہد شکنی نا پسندیدہ ہے۔
 
عہد شکنی کی بھیانک نتائج سے بھی ہم سب واقف۔ عہد شکنی سے گھر ٹوٹتے ہیں‘ لوگوں کی زندگیاں تباہ ہٍوتیں ہیں‘ محلے‘ قصبے اور شہر ویران ہوتے ہیں۔ عہد شکنی چاہے کویٴ فرد کرے یا قوم و ملک ۔۔۔ نتائج ہمیشہ بھیانک ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم  عہد شکنی کا  سونچتے بھی نہیں۔
لیکن اس کے باوجود بھی لوگ عہد شکنی کرتے ہیں اور وہ بھی اپنے خالق و مالک‘ رحمٰن و رحیم رب سے کی گئی عہدکی عہد شکنی ‘ جو کہ ہر انسان نے اللہ سے اپنی پہلی ملاقات کے وقت کر چکا ہے کہ  ’’ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور اس کا کویٴ شریک نہیں۔‘‘
اللہ سے ہماری اس عہد کی تفصیل قرآن میں کچھ یوں بیان ہوا ہے:
 
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ  ﴿١٧٢﴾ سورة الأعراف
اور جب آپ کے رب نے اوﻻد آدم کی پشت سے ان کی اوﻻد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ
’’  کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘
سب نے جواب دیا:
                         ’’  کیوں نہیں! ہم سب گواه بنتے ہیں۔‘‘
تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔
 
أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧٣ سورة الأعراف

’’ یا یوں کہو کہ  پہلے  پہلے  شرک  تو  ہمارے  بڑوں  نے  کیا  اور  ہم  ان  کے  بعد  ان  کی  نسل  میں  ہوئے،  سو  کیا  ان  غلط  راه  والوں  کے  فعل  پر  تو  ہم  کو  ہلاکت  میں  ڈال  دے گا؟ ‘‘
 
اس عہدکے بارے میں حضرت اُبَیّ بن کَعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کر کے کچھ یوں بیان کیا ہے:
 
”اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے)لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی،  پھر ان  سے  عہد  و  میثاق  لیا  اور  انہیں  آپ  اپنے  اوپر  گواہ  بناتے  ہوئے  پو چھا  کیا  میں  تمہارا  رب  نہیں  ہوں؟  انہوں  نے  عرض  کیا  ضرور  آپ  ہمارے  رب  ہیں۔  تب  اللہ تعالیٰ  نے  فرمایا  کہ  میں  تم  پر  زمین  و  آسمان  سب  کو  اور  خود  تمہارے  باپ  آدم  کو  گواہ  ٹھہراتا  ہوں  تا کہ  تم  قیامت  کے  روز  یہ  نہ  کہہ  سکو  کہ  ہم  کو  اس  کا  علم  نہ  تھا۔  خوب  جان  لو  کہ  میرے  سوا  کوئی  مستحقِ  عبادت  نہیں  ہے  اور  میرے  سوا  کوئی  رب  نہیں  ہے۔  تم  میرے  ساتھ  کسی  کو  شریک  نہ  ٹھہر انا۔  میں  تمہارے  پاس  اپنے  پیغمبر  بھیجوں  گا  جو  تم  کو  یہ  عہد  و  میثاق  جو  تم  میرے  ساتھ  باندھ  رہے  ہو،  یاد  دلائیں  گے  اور  تم  پر  اپنی  کتابیں  بھی  نازل  کروں  گا ۔  اس  پر  سب  انسانوں  نے  کہا  کہ  ہم  گواہ  ہوئے،  آپ  ہی  ہمارے  رب  اور  آپ  ہی  ہمارے  معبود  ہیں،  آپ  کے  سوا  نہ  کوئی  ہمارا  رب  ہے  نہ  کوئی  معبود“۔
 
اسلامی تشریحات میں یہ عہد ’عہد الست‘ کہلاتا ہے ۔
 
اس ازلی عہد و میثاق اس بات پر دلیل ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔  ہمارے رحیم و کریم رب نے اس عہد کا شعور ہر انسان کے اندر ہی رکھ دیا ہے۔ ہر انسان فطرتاً اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرتا ہے، چاہے وہ دل و زبان سے کتنا ہی ڈھٹایٴ اور ہٹ ڈھرمی کا مظاہرہ کیوں نہ کرے۔
 

ہم سب اپنے خالق کے ساتھ اسی ’ میثاق / عہد ‘  میں بندھے ہوئے ہیں۔  اسی ’ میثاق / عہد ‘  کی یاد دہانی کیلئے انبیاء علیہ السلاۃ و السلام مبعوث ہوتے رہے اور اب یہ’ میثاق / عہد ‘ تحریری طور پر قرآن میں قیامت تک کیلئے محفوظ کر دیا گیا ہے تاکہ قیامت تک آنے والی انسانیت اس ’ میثاق / عہد ‘   کی روشنی میں ’ اللہ کو اپنا ربِ واحد مانتے ہوئے اسی کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق زندگی گزاریں اور کامیابی سے ہم کنار ہوں۔
 
لیکن المیہ یہ ہے کہ اخلاقی و عملی فسادات‘  جہالت و جاہلیت‘ نفسانی خواہشات و تعصبات کی رو میں بہہ کر آج مسلمانوں کی اکثریت اس میثاق کی پاسداری نہیں کر رہی ہے اور ہر لمحہ شرک و بدعت میں غرق ہونے کے باوجود یہ نعرہ ہے کہ ’’ امت مسلمہ کبھی شرک نہیں کرسکتی ‘‘۔
 
ضد‘ بغض‘ عناد‘ تعصب و ہٹ دھرمی سے پاک ہوکر قرآن و حدیث کو معیار بنا کر اس ہمیشہ کی حلاقت میں ڈالنے والی نعرہ سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نکالئے۔
 
پہلی قوموں کی تباہی و بر بادی کا سبب بھی یہی شرک تھا اور یہ اُمت بھی اُسی روش کو اپنا کر تباہ ہو رہی ہے۔  ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہی ہے‘ یہودیوں کی جیسی ذلت و مسکنت اس پہ چھا گئی ہے۔
 
اس مغالطے میں نہ رہیں کہ اُمت مسلمہ عہد کی پاسداری کر رہی ہے کونکہ اگر یہ اُمت عہد نبھاتی تو اللہ بھی اپنا وعدہ پورا کرتا کیونکہ ہم سب کا ایمان ہے کہ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا اور اللہ کا وعدہ ہے:
 
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٥٥سورة النور
 
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ / حاکم / جانشین  بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ / حاکم / جانشین  بنایا  تھا  جو ان سے  پہلے  تھے اور یقیناً  ان  کے  لئے  ان  کے  اس  دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے  جما  دے  گا  جسے  ان  کے لئے  وه  پسند  فرما  چکا  ہے  اور  ان  کے  اس  خوف  و خطر  کو  وه  امن  و امان  سے  بدل  دے  گا،  وه  میری  عبادت  کریں  گے  میرے  ساتھ  کسی  کو  بھی  شریک  نہ  ٹھہرائیں  گے۔  اس  کے  بعد  بھی  جو  لو گ  نا شکری  اور  کفر  کریں  وه  یقیناً  فاسق  ہیں ۔
 
تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے ہمیشہ اپنے موحد بندوں ہی کو غلبہ عطا کیا اور مشرکوں کو تباہ و برباد کیا۔  جس دن اُمت کی اکثریت توحید پہ گامزن ہو جائے گی اللہ اپنے وعدے کے مطابق اُمت مسلمہ کو غلبہ دے گا جیسے اس سے پہلے والوں کو غلبہ دیا تھا‘  دین اسلام کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے حق میں پسند کیا ہے، اور موجودہ خوف  و خطر  کو امن  و امان  سے  بدل  دے  گا۔
 
تو آئیے شرک کی بیخ کنی کریں اور توحید کی دعوت عام کریں۔
دعاوٴں کا طالب: محمد اجمل خان