ہماری زندگی مختلف
عہد و میثاق (Agreement ) میں بندھی ہے۔
ہم عہد و پیمان باندہ کر ہی شادی کرتے ہیں اور پھر
اُسے ساری زندگی نبھاتے بھی ہیں۔
ہمیں ملازمت بھی ایک
عہد (Agreement ) کے تحت ملتی
ہے اور ہم کام بھی عہد (Agreement ) کے تحت کرتے ہیں۔
ہمارا ملک و معاشرے میں اُٹھنا‘ بیٹھنا‘ چلنا پھرنا‘ رہنا سہنا‘ سب کچھ ہی کسی نہ
کسی عہد کی پاسداری کا حصہ ہے۔
ملک کی شہریت ہو‘ یا
کرائے پہ مکان میں رہنا یا کرائے پہ مکان دینا سب کچھ ہی ایک عہد نامہ (Agreement ) کے تحت ہے۔
ملکوں اور قوموں کے درمیان دوستی اور دشمنی میں بھی میثاق / عہد کلیدی کردار کا
حامل ہے۔
غرض کہ سماجی زندگی
میں ہم ہر جگہ کسی نہ کسی عہد کے پابند ہیں ۔ بعض عہد بالواسطہ اور بعض بلا واسطہ
ہوتا ہے۔ بالواسطہ تو ہم خود سمجھ بوجھ کر
کرتے ہیں جبکہ بلا واسطہ ملکی قانون یا سماج و
دین و ملت کا عہد ہوتا ہے جو از خود ہم سے متعلق ہو جاتا ہے۔ اور ہم ہر حال
میں ہر بالواسطہ و بلا واسطہ عہد کی پاسداری کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں ہی
ہماری کامیابی ہے۔
جی ہم کامیابی چاہتے
ہیں اور اسکے لئے ہر عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں ایفائے
عہد پسندیدہ ہے اور عہد شکنی نا پسندیدہ ہے۔
عہد شکنی کی بھیانک
نتائج سے بھی ہم سب واقف۔ عہد شکنی سے گھر ٹوٹتے ہیں‘ لوگوں کی زندگیاں تباہ
ہٍوتیں ہیں‘ محلے‘ قصبے اور شہر ویران ہوتے ہیں۔ عہد شکنی چاہے کویٴ فرد کرے یا
قوم و ملک ۔۔۔ نتائج ہمیشہ بھیانک ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم عہد شکنی کا
سونچتے بھی نہیں۔
لیکن اس کے باوجود
بھی لوگ عہد شکنی کرتے ہیں اور وہ بھی اپنے خالق و مالک‘ رحمٰن و رحیم رب سے کی
گئی عہدکی عہد شکنی ‘ جو کہ ہر انسان نے اللہ سے اپنی پہلی ملاقات کے وقت کر چکا
ہے کہ ’’ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور اس کا
کویٴ شریک نہیں۔‘‘
اللہ سے ہماری اس عہد
کی تفصیل قرآن میں کچھ یوں بیان ہوا ہے:
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ
وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا
ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢﴾ سورة الأعراف
اور جب آپ کے رب نے اوﻻد آدم کی
پشت سے ان کی اوﻻد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ
’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘
سب نے جواب دیا:
’’ کیوں نہیں! ہم سب گواه
بنتے ہیں۔‘‘
تاکہ تم لوگ قیامت کے روز
یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔
أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا
ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧٣﴾ سورة الأعراف
’’ یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں
نے کیا اور
ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راه والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں
ڈال دے گا؟ ‘‘
اس عہدکے بارے میں حضرت اُبَیّ بن کَعب رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے غالباً نبی صلی اللہ علیہ
وسلم سے استفادہ کر کے کچھ یوں بیان کیا ہے:
”اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع
کیا اور (ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے)لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب
کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی، پھر ان سے
عہد و میثاق
لیا اور انہیں آپ
اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے
پو چھا کیا میں
تمہارا رب نہیں
ہوں؟ انہوں نے
عرض کیا ضرور آپ
ہمارے رب ہیں۔
تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا
کہ میں تم پر زمین
و آسمان سب
کو اور خود
تمہارے باپ آدم
کو گواہ ٹھہراتا ہوں تا
کہ تم قیامت کے
روز یہ نہ کہہ سکو
کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا۔ خوب جان
لو کہ میرے
سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں
ہے اور میرے سوا
کوئی رب نہیں
ہے۔ تم میرے
ساتھ کسی کو شریک نہ
ٹھہر انا۔ میں تمہارے
پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا
جو تم کو یہ عہد و میثاق
جو تم میرے
ساتھ باندھ رہے ہو،
یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا
۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں، آپ
کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی
معبود“۔
اسلامی تشریحات میں یہ عہد
’عہد الست‘ کہلاتا ہے ۔
اس ازلی عہد و میثاق
اس بات پر دلیل ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہِ
واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ ہمارے رحیم و کریم رب نے اس عہد کا شعور ہر
انسان کے اندر ہی رکھ دیا ہے۔ ہر انسان فطرتاً اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرتا ہے،
چاہے وہ دل و زبان سے کتنا ہی ڈھٹایٴ اور ہٹ ڈھرمی کا مظاہرہ کیوں نہ کرے۔
ہم سب اپنے خالق کے
ساتھ اسی ’ میثاق / عہد ‘ میں بندھے ہوئے
ہیں۔ اسی ’ میثاق / عہد ‘ کی یاد دہانی کیلئے انبیاء علیہ السلاۃ و
السلام مبعوث ہوتے رہے اور اب یہ’ میثاق / عہد ‘ تحریری طور پر قرآن میں قیامت تک
کیلئے محفوظ کر دیا گیا ہے تاکہ قیامت تک آنے والی انسانیت اس ’ میثاق / عہد
‘ کی روشنی میں ’ اللہ کو اپنا ربِ واحد
مانتے ہوئے اسی کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق زندگی گزاریں اور کامیابی سے ہم کنار
ہوں۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ
اخلاقی و عملی فسادات‘ جہالت و جاہلیت‘
نفسانی خواہشات و تعصبات کی رو میں بہہ کر آج مسلمانوں کی اکثریت اس میثاق کی
پاسداری نہیں کر رہی ہے اور ہر لمحہ شرک و بدعت میں غرق ہونے کے باوجود یہ نعرہ ہے
کہ ’’ امت مسلمہ کبھی شرک نہیں کرسکتی ‘‘۔
ضد‘ بغض‘ عناد‘ تعصب
و ہٹ دھرمی سے پاک ہوکر قرآن و حدیث کو معیار بنا کر اس ہمیشہ کی حلاقت میں ڈالنے
والی نعرہ سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نکالئے۔
پہلی قوموں کی تباہی
و بر بادی کا سبب بھی یہی شرک تھا اور یہ اُمت بھی اُسی روش کو اپنا کر تباہ ہو
رہی ہے۔ ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہی
ہے‘ یہودیوں کی جیسی ذلت و مسکنت اس پہ چھا گئی ہے۔
اس مغالطے میں نہ
رہیں کہ اُمت مسلمہ عہد کی پاسداری کر رہی ہے کونکہ اگر یہ اُمت عہد نبھاتی تو
اللہ بھی اپنا وعدہ پورا کرتا کیونکہ ہم سب کا ایمان ہے کہ اللہ کبھی وعدہ خلافی
نہیں کرتا اور اللہ کا وعدہ ہے:
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا
الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ
مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ
وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا
يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ
الْفَاسِقُونَ ﴿٥٥﴾سورة النور
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان
ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں
ضرور زمین میں خلیفہ / حاکم / جانشین
بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ / حاکم / جانشین بنایا
تھا جو ان سے پہلے
تھے اور یقیناً ان کے
لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما
دے گا جسے
ان کے لئے وه
پسند فرما چکا
ہے اور ان
کے اس خوف و
خطر کو
وه امن و امان
سے بدل دے
گا، وه میری
عبادت کریں گے
میرے ساتھ کسی
کو بھی شریک
نہ ٹھہرائیں گے۔
اس کے بعد
بھی جو لو گ نا
شکری اور
کفر کریں وه
یقیناً فاسق ہیں ۔
تاریخ شاہد ہے کہ
اللہ نے ہمیشہ اپنے موحد بندوں ہی کو غلبہ عطا کیا اور مشرکوں کو تباہ و برباد
کیا۔ جس دن اُمت کی اکثریت توحید پہ گامزن
ہو جائے گی اللہ اپنے وعدے کے مطابق اُمت مسلمہ کو غلبہ دے گا جیسے اس سے پہلے
والوں کو غلبہ دیا تھا‘ دین اسلام کو
مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے حق میں پسند کیا ہے، اور
موجودہ خوف و خطر کو امن
و امان سے بدل
دے گا۔
تو آئیے شرک کی بیخ
کنی کریں اور توحید کی دعوت عام کریں۔
دعاوٴں کا طالب: محمد اجمل خان